پاکستان - 12 نومبر 2025
کینیا میں انسان اور ہاتھی کے تنازع کے حل میں ڈرون ٹیکنالوجی اہم کردار ادا کرنے لگی
تازہ ترین - 03 نومبر 2025
کینیا کے امبوسیلی ایکو سسٹم کی وادیوں میں اب صبح کے وقت ٹریکٹروں یا جنریٹروں کی نہیں بلکہ ڈرونز کی بھنبھناہٹ سنائی دیتی ہے — یہ جدید آلات انسانوں اور ہاتھیوں کے درمیان صدیوں پرانے تصادم میں ایک نیا اور مؤثر ذریعہ بن چکے ہیں۔
کئی نسلوں سے کسان اپنی فصلوں کو ہاتھیوں کے ہاتھوں تباہ ہوتے دیکھتے آئے ہیں، جو خوراک اور پانی کی تلاش میں مکئی، پھلیوں اور ٹماٹر کے کھیت روند ڈالتے ہیں۔ نتیجتاً، کسانوں کو مالی نقصان، ٹوٹی ہوئی باڑیں، اور روزگار کے شدید مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
اب جنوبی کینیا کے کاجیڈو اور امبوسیلی جیسے علاقوں میں کسان جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس تنازع کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بگ لائف فاؤنڈیشن جیسے اداروں نے تھرمل کیمروں سے لیس ڈرونز متعارف کرائے ہیں جو دن اور رات ہاتھیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں۔
یہ ڈرونز حرارت کے سگنلز سے جانوروں کی موجودگی کا پتہ لگا کر قریبی آبادیوں کو بروقت خبردار کرتے ہیں، جس سے کسان پیشگی حفاظتی اقدامات کر سکتے ہیں۔
کارپورل ڈیوڈ نتینینا، جو بگ لائف فاؤنڈیشن کے وائلڈ لائف آفیسر اور ڈرون پائلٹ ہیں، کہتے ہیں کہ ڈرونز نے جنگلی حیات کے نظم و نسق کا طریقہ بدل دیا ہے۔ ان کے مطابق:"یہ ایک تیز، محفوظ اور مؤثر طریقہ ہے۔ ہاتھی ڈرون کی آواز اور روشنی سے گھبرا کر خود ہی محفوظ علاقے کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔"
نتینینا رات کے وقت انفراریڈ کیمروں کے ذریعے ریوڑ کی نگرانی کرتے ہیں، جس میں ہر ہاتھی تاریک سوانا میں ایک روشن حرکت پذیر شکل کی صورت میں نظر آتا ہے۔ جیسے ہی ہاتھی کھیتوں کے قریب پہنچتے ہیں، وہ ڈرونز کو ان کے اوپر بھیجتے ہیں، جس سے ریوڑ بغیر کسی تصادم کے واپس مڑ جاتا ہے۔
یہ طریقہ کار 4 کلومیٹر تک کے فاصلے سے ہاتھیوں کو کھیتوں سے دور رکھنے میں مدد دیتا ہے — جو پہلے استعمال ہونے والے شور مچانے والے ٹرکوں، اسپاٹ لائٹس اور خالی فائرنگ کے مقابلے میں نہ صرف محفوظ بلکہ پائیدار بھی ہے۔ مزید یہ کہ، یہ ڈرونز جی پی ایس کالر والے ہاتھیوں سے منسلک ہیں، جو پورے ماحولیاتی نظام میں ان کی حقیقی وقت میں نگرانی ممکن بناتے ہیں۔
دیکھیں

