کھیل - 12 نومبر 2025
آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا پاکستان کو بڑے معاشی و ماحولیاتی خطرات سے آگاہ کرنے کا انتباہ
کاروبار - 08 نومبر 2025
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک نے پاکستان کی معیشت کو درپیش بڑے چیلنجز کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمزور انرجی سیکٹر، ناقص ادارہ جاتی اصلاحات، کمزور گورننس، غیر موزوں کاروباری ماحول، کمزور برآمدات اور محدود ٹیکس نیٹ پاکستان کی معاشی پائیداری کے لیے سنگین خطرات ہیں۔
اسلام آباد میں ایس ڈی پی آئی کے زیرِ اہتمام سیشن سے خطاب کرتے ہوئے عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی، سیلاب اور فضائی آلودگی پاکستان کی معیشت پر شدید دباؤ ڈال رہے ہیں، جس کے باعث ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) 2050 تک 20 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 2022 کے تباہ کن سیلاب سے پاکستان کو 30 ارب ڈالر جبکہ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے 2.9 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ان کے مطابق، صحت، خوراک، تعلیم، صاف پانی اور ماحول سے متعلق مسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں۔
عالمی بینک کے نمائندے نے کہا کہ ادارہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کے تحت پاکستان کو 20 ارب ڈالر فراہم کرے گا، تاہم اس کے لیے موسمیاتی موافقت، پالیسی اصلاحات اور شفاف عمل درآمد لازمی ہوگا۔ ان کے مطابق، تیزی سے بڑھتی آبادی اور غذائی قلت بچوں اور نوجوانوں کی استعدادِ کار پر منفی اثر ڈال رہی ہے، جو مستقبل میں معیشت کے لیے بوجھ بن سکتی ہے۔
آئی ایم ایف کے نمائندے نے بتایا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں اور سیلابوں کے باعث سنگین مائیکرو اکنامک چیلنجز درپیش ہیں، جبکہ Resilience and Sustainability Facility (RSF) پروگرام کی پہلی قسط دسمبر تک جاری ہونے کی توقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب خطرناک حد تک کم ہے، جسے کم از کم 15 فیصد تک بڑھانا ناگزیر ہے۔ انرجی سیکٹر میں فوری اسٹرکچرل اصلاحات اور سرکاری اداروں کی نجکاری میں تسلسل کو معیشت کی بحالی کے لیے ضروری قرار دیا گیا۔
آئی ایم ایف کے مطابق، مہنگائی مڈٹرم میں تقریباً 7 فیصد تک کم ہونے کی توقع ہے جبکہ 2027 تک معیشت کے استحکام اور ترقی کی سمت میں پیش رفت ممکن ہے۔
یو این ڈی پی کے نمائندے نے سفارش کی کہ پاکستان کو قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے پیشگی منصوبہ بندی اور سالانہ 8 سے 10 ارب ڈالر کی موسمیاتی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
ماہرین نے زور دیا کہ پاکستان کو موجودہ معاشی اور ماحولیاتی بحران سے نکلنے کے لیے پالیسی تسلسل، شفاف گورننس، ٹیکس نیٹ کی توسیع، گرین فنانسنگ اور برآمدات کے فروغ پر فوری توجہ دینا ہوگی۔
دیکھیں

