دنیا - 26 دسمبر 2025
لیاری کی کہانیاں: پاکستانی فلم سازوں کی محنت اور محدود وسائل کے باوجود اہم تخلیقی سفر
انٹرٹینمنٹ - 23 دسمبر 2025
بالی ووڈ فلم ’دھرندھر‘ میں لیاری اور اس سے جڑے کرداروں کی جھلک کے بعد پاکستان میں پیدا ہونے والے ردِعمل نے ایک بار پھر سوال اٹھا دیا کہ کیا ہم اپنی کہانیاں صرف تب اہمیت دیتے ہیں جب ان پر سرحد پار سے مہر لگ جائے؟
اس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا کہ لیاری پر مبنی کہانیاں پاکستانی فلم سازوں نے پہلے ہی محدود وسائل کے ساتھ پیش کر دی تھیں۔
اگرچہ یہ فلمیں باکس آفس پر کامیاب نہ ہو سکیں یا انہیں بڑے بجٹ اور مؤثر تشہیر کا فائدہ نہ ملا، لیکن ان کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہے۔
چند نمایاں فلمیں:
- ’شاہ‘ (2015): اولمپک باکسر حسین شاہ کی زندگی پر مبنی فلم، جسے محدود بجٹ اور لاہور میں لیاری کے ماحول کی نقل کرتے ہوئے بنایا گیا۔
- ’چوہدری‘ (2022): کراچی پولیس کے افسر چوہدری محمد اسلم خان کی کہانی، جس کی شوٹنگ بڑی حد تک لیاری میں کی گئی، مگر باکس آفس پر کامیاب نہ ہو سکی۔
- ’دودا‘: بلوچی زبان میں بننے والی پہلی فیچر فلم، تقریباً 80 فیصد شوٹنگ لیاری میں، نوجوان باکسر کی کہانی پر مبنی۔
- ’دادل‘ (2023): خاتون باکسر کی کہانی، زیادہ تر لیاری میں فلمائی گئی مگر محدود بجٹ کے باعث باکس آفس پر ناکام۔
- ’مداری‘ (2023): نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے طلبہ کی فلم، محدود ریلیز اور بجٹ کے باوجود لیاری کی سماجی اور سیاسی تصویر پیش کرتی ہے۔
- ’میرا لیاری‘ (2026): آنے والی فلم، لیاری کا مثبت اور حقیقی چہرہ دکھانے کے لیے بنائی گئی، دو لڑکیوں کے فٹبال کے خواب اور مقامی کوچ کی رہنمائی پر مبنی۔
اگرچہ زیادہ تر فلمیں تکنیکی طور پر اعلیٰ معیار پر پوری نہیں اترتیں، لیکن ان کی اصل قدر اس بات میں ہے کہ پاکستانی فلم ساز محدود وسائل کے باوجود اپنی کہانیاں سنانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
یہ فلمیں لیاری اور کراچی کے حقیقی سماجی اور ثقافتی منظرنامے کی عکاسی کرتی ہیں اور مقامی تخلیق کاروں کی جدوجہد کا ثبوت ہیں۔
دیکھیں

