این ایف سی کمیشن کا اجلاس ایک بار پھر مؤخر، معاشی ہدف 3.5 فیصد تک کم

news-banner

کاروبار - 17 نومبر 2025

قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کا ابتدائی اجلاس تین ماہ بعد بھی نہ ہو سکا اور 18 نومبر کی طے شدہ تاریخ بھی ملتوی کر دی گئی ہے۔ اس دوران حکومت نے موجودہ مالی سال کا معاشی ترقی کا ہدف 0.7 فیصد کم کرتے ہوئے 3.5 فیصد مقرر کر دیا ہے۔

 

ڈان اخبار کے مطابق، ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف چاہتے ہیں کہ مالیاتی امور پر باضابطہ بحث سے پہلے مرکز اور صوبوں کے درمیان سیاسی معاملات پر بات چیت کا سازگار ماحول قائم ہو۔

 

یاد رہے کہ 11واں این ایف سی ایوارڈ 22 اگست کو تشکیل دیا گیا تھا تاکہ وفاق اور صوبوں کے درمیان قابل تقسیم وسائل کی نئی تقسیم طے کی جائے، تاہم اجلاس متعدد بار سیلاب اور سیاسی وجوہات کی بنا پر مؤخر ہوتا رہا۔ اس طرح 2009 میں جاری ہونے والا ساتواں این ایف سی ایوارڈ آج تک برقرار ہے، حالانکہ اس کی آئینی مدت پانچ سال تھی۔

 

وزارتِ خزانہ، آئی ایم ایف اور دیگر ادارے عرصے سے ساتویں این ایف سی میں صوبوں کے بڑے حصے پر نظرثانی کا مطالبہ کر رہے ہیں، مگر آئین کے مطابق کسی صوبے کا حصہ کم نہیں کیا جا سکتا اور ایوارڈ مرکز اور تمام صوبوں کی متفقہ منظوری سے ہی طے ہوتا ہے۔

 

ساتویں این ایف سی کے تحت صوبوں کو قابل تقسیم ٹیکسوں میں 57.5 فیصد حصہ ملتا ہے، جس میں پنجاب 51.74 فیصد، سندھ 24.55 فیصد، خیبر پختونخوا 14.62 فیصد اور بلوچستان 9.09 فیصد لیتا ہے۔

 

ذرائع کے مطابق وزیراعظم آفس نے اجلاس ملتوی کرنے کی ہدایت دی، حالانکہ این ایف سی کمیشن صدر کی جانب سے تشکیل دیا جاتا ہے اور وزیراعظم کا اس میں براہِ راست کردار نہیں ہوتا۔

 

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاق پہلے ہی پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی اور صوبائی نقد سرپلس کو بڑے ریونیو ذرائع کے طور پر استعمال کر رہا ہے، جن کی مجموعی مالیت 30 کھرب روپے تک بنتی ہے، جو جی ڈی پی کے دو فیصد کے برابر ہے۔

 

اسی طرح بلند شرح سود کے باعث اسٹیٹ بینک کے منافع سے بھی تقریباً 2.5 ارب روپے سالانہ حاصل کیے جا رہے ہیں، جبکہ ایف بی آر کے ٹیکس اہداف میں 275 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے۔

 

وزارتِ خزانہ کے مطابق سیلاب نے آئندہ مالی سال 2026 کی جی ڈی پی میں 0.3 سے 0.7 فیصد کمی کی ہے، جبکہ معاشی نقصان 822 ارب روپے سے زائد ہے۔ زرعی شعبے کو سب سے زیادہ 430 ارب روپے کا نقصان پہنچا، جس کے باعث زرعی ترقی کا ہدف بھی کم ہو کر 3 سے 3.8 فیصد رہ گیا ہے۔

وزارت نے خبردار کیا ہے کہ چاول کی برآمدات متاثر ہونے اور گندم، روئی، دالوں سمیت دیگر درآمدات بڑھنے سے تجارتی خسارہ بڑھ سکتا ہے، جبکہ خوراک اور بنیادی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کے دباؤ کو برقرار رکھے گا۔