برطانیہ میں پاکستانیوں کی اسائلم درخواستیں ریکارڈ سطح پر، قانونی ویزوں کے غلط استعمال پر تشویش

news-banner

دنیا - 25 نومبر 2025

برطانیہ کے تازہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی شہری بڑی تعداد میں چھٹیوں، ورک اور اسٹوڈنٹ ویزوں کے ذریعے برطانیہ میں داخل ہو کر بعد ازاں اپنا اسٹیٹس تبدیل کرتے ہوئے پناہ کی درخواستیں دائر کر رہے ہیں۔ اس رجحان نے گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستانیوں کے اسائلم کلیمز کو ریکارڈ سطح تک پہنچا دیا ہے۔

 

رپورٹس کے مطابق پچھلے برس تقریباً 10 ہزار پاکستانی ایسے تھے جو قانونی ویزے پر برطانیہ آئے، لیکن قیام کے دوران انہوں نے پناہ کے لیے درخواست دے دی۔ برطانوی حکام اس عمل کو "امیگریشن سسٹم کے غلط استعمال" کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

 

اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پناہ کی درخواست دینے والوں میں سب سے زیادہ تعداد اسٹوڈنٹ ویزا پر آنے والوں کی ہے، جن میں سے 6 ہزار سے زائد افراد نے اپنا اسٹیٹس اسائلم میں تبدیل کیا۔

 

 اس کے علاوہ ڈھائی ہزار سے زیادہ پاکستانی ورک ویزے پر آئے اور بعد میں پناہ کے لیے درخواست دی، جب کہ وزیٹر ویزے پر آنے والے سیکڑوں پاکستانیوں نے بھی برطانیہ پہنچ کر اسائلم کلیمز دائر کیے۔

 

گزشتہ سال مجموعی طور پر اسائلم درخواستیں دائر کرنے والے مختلف ممالک کے شہریوں میں پاکستانی سرفہرست رہے—جو کہ ایک غیر معمولی تبدیلی ہے، کیونکہ ماضی میں اس فہرست میں مشرقِ وسطیٰ اور افریقی ممالک کے شہری غالب تھے۔

 

آکسفورڈ یونیورسٹی کے مائیگریشن ماہر پیٹر والِش کے مطابق پاکستان میں معاشی دباؤ، سیاسی عدم استحکام، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور سیکیورٹی خدشات ایسے عوامل ہیں جو لوگوں کو قانونی ویزوں کے ذریعے برطانیہ پہنچنے اور بعد میں پناہ لینے پر مجبور کر رہے ہیں۔

 

بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق کچھ پاکستانی ایجنٹس بھاری رقوم—بعض کیسز میں 50 ہزار پاؤنڈ تک—کے عوض جعلی دستاویزات فراہم کرتے ہیں، جن کی مدد سے لوگ برطانیہ کا ویزا حاصل کرتے ہیں اور بعد میں اسائلم کا دعویٰ دائر کر دیتے ہیں۔

 

اس صورتِ حال کے پیش نظر برطانوی حکومت پناہ کے نظام سے دباؤ کم کرنے کے لیے قوانین مزید سخت کرنے پر غور کر رہی ہے۔ 

 

مجوزہ اقدامات میں عارضی ویزے سے پناہ کا دعویٰ کرنے والوں کی درخواست نہ سننا، اسٹیٹس تبدیلی کے کیسز کی سخت جانچ، اوور اسٹے کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی اور سرکاری رہائش کی سہولت محدود کرنا شامل ہیں۔

 

 تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ غیر ضروری سختی سے حقیقی اور مستحق درخواست گزار متاثر ہو سکتے ہیں۔