پاکستان کی غیر رسمی ریٹیل معیشت: ملک کی پوشیدہ معاشی قوت

news-banner

کاروبار - 29 دسمبر 2025

اسلام آباد: جیسے ہی پاکستان کی گلیوں، بازاروں اور محلوں میں شام ہوتی ہے، یہاں کی معاشی سرگرمی ملک کی غیر رسمی ریٹیل معیشت کی حقیقی تصویر پیش کرتی ہے۔

 

 کریانہ اسٹورز، ریڑھی بان، گھریلو کاروبار اور چھوٹے تھوک فروش روزمرہ کی ضروریات کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، مگر یہ شعبہ زیادہ تر دستاویزی شکل میں موجود نہیں ہے۔

 

مطالعات کے مطابق پاکستان کی غیر رسمی معیشت مجموعی قومی پیداوار کا 35–40 فیصد حصہ ہے، جبکہ تھوک اور پرچون تجارت اس کا بنیادی ستون ہے۔ غیر زرعی شعبے میں تقریباً 70 فیصد افراد غیر رسمی طور پر کام کرتے ہیں، جو شعبے کی اہمیت اور دستاویزی چیلنج کو ظاہر کرتا ہے۔

 

یہ غیر رسمی ریٹیل نیٹ ورک کم قیمت پر اشیاء فراہم کرتا ہے، کم آمدنی والے طبقے کو سہولت دیتا ہے اور معاشی دباؤ کے دوران تیزی سے ڈھل جاتا ہے، مگر نقد لین دین اور غیر دستاویزی نظام کے باعث دکاندار جدید ڈیجیٹل نظام، باقاعدہ قرض اور مالی سہولیات سے محروم رہتے ہیں، جس سے پیداواری صلاحیت محدود رہتی ہے۔

 

ریاست کے لیے نتیجہ کم ٹیکس وصولی کی صورت میں نکلتا ہے، کیونکہ پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب دیگر خطے کے ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ ماہرین کے مطابق ریٹیل سیکٹر کو رسمی نظام میں لانا ضروری ہے، مگر یہ عمل سزا کی بجائے سہولت پر مبنی ہونا چاہیے۔

 

مرحلہ وار حکمت عملی زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتی ہے:

 

  • بڑے ریٹیلرز کے لیے مکمل ڈیجیٹل انوائسنگ
  •  
  • درمیانے درجے کے دکانداروں کے لیے سادہ نظام
  •  
  • چھوٹے فروشوں کے لیے QR ادائیگی اور کم شرح ٹیکس
  •  

یہ اقدامات نہ صرف ٹیکس وصولی بڑھائیں گے بلکہ روزگار، پیداواری صلاحیت اور پالیسی سازی کے لیے بہتر ڈیٹا بھی فراہم کریں گے۔

 

 درست نفاذ اور اعتماد سازی کے ذریعے، پاکستان کی غیر رسمی ریٹیل معیشت گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔