دنیا - 19 نومبر 2025
القاعدہ دو دہائی بعد بھی فعال، مغربی افریقہ میں اثر و رسوخ میں اضافہ,,ڈی ڈبلیو رپورٹ
دنیا - 19 نومبر 2025
جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 9/11 کے دو دہائیوں بعد بھی القاعدہ نہ صرف فعال ہے بلکہ اس نے خود کو نئے حالات کے مطابق ڈھال کر اپنی موجودگی برقرار رکھی ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل اور الجزیرہ کی رپورٹس بھی اس بات کی توثیق کرتی ہیں کہ القاعدہ سے منسلک جماعت نصرة الاسلام والمسلمین (جے این آئی ایم) مالی کے دارالحکومت بماکو پر قبضے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ گروہ نے ایندھن کے قافلوں کے راستے منقطع کر کے دارالحکومت کا مؤثر محاصرہ کر رکھا ہے جس سے ملک معیشت سمیت متعدد شعبوں میں مفلوج ہو گیا ہے۔
القاعدہ نے اپنی فوری قیادت کے قتل اور گرفتاریوں کے باوجود ایک نئی حکمتِ عملی کے تحت خود کو مرکزی تنظیم کے بجائے علاقائی و نیم خودمختار شاخوں میں تقسیم کیا، جو اس کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا۔ ان میں الشباب، جے این آئی ایم، AQAP، AQIS اور دیگر گروہ شامل ہیں۔
صومالیہ میں الشباب دوبارہ طاقت پکڑ رہی ہے جبکہ مالی اور مغربی افریقہ میں القاعدہ کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ متعدد خفیہ جہادی چینلز تو یہ پیش گوئی بھی کر رہے ہیں کہ سال کے آخر تک مالی یا صومالیہ میں ’اسلامی ریاست‘ قائم ہو سکتی ہے۔
القاعدہ کے اس نیٹ ورک کو افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آ جانے سے نظریاتی تقویت ملی ہے۔ تاہم دوحہ معاہدے نے القاعدہ کی مرکزی قیادت کو افغانستان میں کھل کر فعال ہونے سے روکے رکھا جس کے نتیجے میں AQIS عملی طور پر غیر فعال ہو گئی اور زیادہ تر پروپیگنڈا تک محدود رہی۔
رپورٹس کے مطابق طالبان کی خفیہ ایجنسی غیر ملکی عسکری گروہوں کو رہائش، ماہانہ وظائف اور بعض صورتوں میں شناختی دستاویزات تک فراہم کرتی ہے، جس سے خطے میں ان کی طویل مدتی موجودگی کو سہارا ملتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کمزور ریاستیں، بدعنوان حکمرانی، غیر ملکی مداخلت، اور معاشی عدم مساوات وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے القاعدہ کی شاخیں مختلف خطوں میں پنپ رہی ہیں۔ اگرچہ القاعدہ بڑی بین الاقوامی کارروائیوں سے گریز کر رہی ہے، مگر اس کی علاقائی طاقت اور اثر و رسوخ مسلسل بڑھ رہا ہے جو عالمی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔
دیکھیں

