سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت: بینچ کی تشکیل اور اپیل کے حق پر ججز کے اہم ریمارکس

news-banner

پاکستان - 14 اکتوبر 2025

سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ کر رہا ہے، جس میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔

 

سماعت کے آغاز پر انٹرنیٹ میں خرابی کے باعث ویڈیو لنک کے ذریعے لائیو اسٹریمنگ ممکن نہ ہو سکی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل عابد زبیری اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ کسی پارٹی کو جج پر اعتراض کا حق نہیں، مقدمہ سننے یا نہ سننے کا اختیار خود جج کے پاس ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی استدعا فل کورٹ تشکیل دینے کی ہے۔

 

اس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کا مطالبہ نہ کریں، صرف یہ تجویز دیں کہ وہ ججز شامل ہوں جو ترمیم سے قبل عدالتِ عظمیٰ میں موجود تھے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے کہا کہ آپ ایک طرف فل کورٹ بنانے کا کہہ رہے ہیں، اور دوسری طرف یہ بھی کہ صرف 16 ججز کیس سنیں — پہلے اپنی استدعا واضح کریں۔

 

عابد زبیری نے کہا کہ موجودہ 8 رکنی بینچ میں اپیل کا حق نہیں مل سکے گا، جبکہ آئینی طور پر بینچ میں 15 ججز نامزد ہیں اور اپیل کے لیے کم از کم 9 مزید ججز درکار ہوں گے۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اپیل کے حق کا فیصلہ اب جوڈیشل کمیشن کے اختیار میں ہے، جو چاہے تو اضافی ججز نامزد کرکے اپیل کی اجازت دے سکتا ہے، یا یہ حق واپس بھی لے سکتا ہے۔

 

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حتیٰ کہ 16 رکنی بینچ میں بھی اپیل کا حق نہیں ہوگا، جبکہ عابد زبیری نے مؤقف اپنایا کہ اجتماعی دانش پر مبنی فیصلوں میں اپیل کا حق لازمی نہیں ہوتا۔

 

سماعت کے دوران جسٹس مندوخیل اور جسٹس عائشہ ملک کے درمیان سپریم کورٹ رولز سے متعلق تبادلۂ خیال ہوا۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ 24 ججز کی میٹنگ میں رولز پر بات ہوئی تھی، جبکہ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ان کا اختلافی نوٹ ریکارڈ پر ہے اور تمام ججز کے سامنے رولز پیش نہیں کیے گئے تھے۔

 

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جب تک یہ معاملہ واضح نہیں ہوتا، کیس آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اٹارنی جنرل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت کا اندرونی معاملہ ہے، اسے کھلی سماعت میں زیر بحث نہ لایا جائے۔