پی پی ایم اے کی وضاحت: ادویات کی قیمتوں میں اوسط اضافہ 15٪، 23٪ نہیں

news-banner

تازہ ترین - 13 نومبر 2025

پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) نے وضاحت کی ہے کہ فروری 2024 میں حکومت کی ڈی ریگولیشن پالیسی کے بعد ادویات کی قیمتوں میں اوسطاً 15 فیصد اضافہ ہوا، 23 فیصد نہیں جیسا کہ بعض رپورٹس میں بتایا گیا۔

 

پی پی ایم اے کے بیان کے مطابق 32 فیصد کا اضافہ گزشتہ دو سالوں کے مجموعی اضافے کو ظاہر کرتا ہے، نہ کہ صرف ڈی ریگولیشن کے اثر کو۔ حقیقی 15 فیصد اضافے میں تقریباً 2.5 فیصد پیداواری یونٹس میں توسیع اور نئی مصنوعات کی ابتدائی قیمت شامل ہے، جس سے موجودہ ادویات پر خالص اثر تقریباً 13.5 فیصد بنتا ہے۔

 

بیان میں عالمی سطح پر ادویات کی فروخت اور قیمتوں کے سب سے معتبر ذریعہ، IQVIA کی تازہ ترین رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ گزشتہ 12 ماہ میں مجموعی قیمتوں میں صرف 16 فیصد اضافہ ہوا۔

 

پی پی ایم اے نے کہا کہ ڈی ریگولیشن سے پہلے پاکستان کی دواسازی کی صنعت شدید بحران کا شکار تھی، جس کی وجوہات میں قیمتوں پر سخت کنٹرول، روپے کی تاریخی قدر میں کمی، اور 35 فیصد تک پہنچنے والی مہنگائی شامل تھیں۔ اس کی وجہ سے کینسر، انسولین، ٹی بی، ہیپرین اور امراض قلب کی اہم ادویات کی قلت پیدا ہوئی تھی اور مریض جعلی یا اسمگل شدہ ادویات پر مجبور تھے۔

 

بیان میں مزید کہا گیا کہ غیر ضروری ادویات کی ڈی ریگولیشن کی بدولت 50 سے زائد زندگی بچانے والی اور اہم ادویات دوبارہ مقامی فارمیسیز میں دستیاب ہو گئی ہیں، کیونکہ کارخانہ داروں نے پیداوار دوبارہ شروع کر دی ہے۔

 

آخر میں، پی پی ایم اے نے حکومت کے بروقت اقدام کا شکریہ ادا کیا، جس سے مارکیٹ مستحکم ہوئی اور پاکستان کی پالیسی کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا گیا، جیسا کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں کیا جاتا ہے، جہاں صرف ضروری ادویات ہی قیمتوں کے حکومتی کنٹرول میں رہتی ہیں۔