پاکستان میں آٹو لونز مسلسل گیارہویں ماہ بھی بڑھ گئے، واجب الادا رقم 315 ارب سے تجاوز

news-banner

کاروبار - 18 نومبر 2025

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق آٹو لونز میں اضافہ مسلسل گیارہویں ماہ بھی برقرار رہا۔ ستمبر کے اختتام پر واجب الادا آٹو فنانسنگ 305 ارب روپے تھی، جو اکتوبر کے آخر تک بڑھ کر 315 ارب 40 کروڑ روپے تک پہنچ گئی۔

 

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جون 2024 میں پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد ہونے کے بعد آٹو فنانسنگ دوبارہ اس بلند ترین سطح کے قریب پہنچ رہی ہے، جو جون 2023 میں 368 ارب روپے تک ریکارڈ کی گئی تھی۔

 

اگر شرحِ سود مستحکم رہی یا مزید کم ہوئی تو آئندہ مہینوں میں گاڑیوں کے قرضوں کی طلب مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ خاص طور پر چھوٹی گاڑیوں جیسے سوزوکی آلٹو 660 سی سی اور امپورٹڈ سیکنڈ ہینڈ کاروں کی مانگ بھی اس رجحان کو بڑھا رہی ہے۔

 

مارکیٹ میں نئے برانڈز کی انٹری اور کمپنیوں کی جانب سے پرکشش فنانسنگ پیکجز (جن میں سود کی شرح 10 فیصد سے بھی کم ہے) صارفین کو بینک فنانسنگ کی طرف مائل کر رہے ہیں۔ تاہم 30 لاکھ روپے کی زیادہ سے زیادہ فنانسنگ حد، 30 فیصد ڈاؤن پیمنٹ اور محدود ادائیگی مدت خریداروں کے لیے رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

 

پاکستان آٹو شو 2024 کے دوران مقامی و غیر ملکی کمپنیوں نے ماحول دوست گاڑیوں اور نئی ٹیکنالوجیز کی نمائش کی، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان میں الیکٹرک وہیکلز کا شعبہ تیزی سے ترقی کر سکتا ہے۔ 172 نمائش کنندگان میں پاکستانی مینوفیکچررز کے ساتھ 33 چینی اور 6 ایرانی کمپنیاں بھی شامل تھیں۔

 

ایونٹ میں متعدد برانڈز نے اپنے نئے ماڈلز متعارف کرائے، جن میں ایم جی، چاؤلہ گرین، چنگان، ماسٹر چیری، کیپیٹل اسمارٹ موٹرز اور سوزوکی شامل ہیں۔ تاہم مینوفیکچررز کے مطابق پالیسی میں تسلسل نہ ہونے سے صنعت میں بے یقینی برقرار ہے، کیونکہ حکومت نئی آٹو پالیسی 2026-31 تیار کر رہی ہے۔

 

مینوفیکچررز کا کہنا ہے کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدات میں اضافے نے مقامی انڈسٹری کو نقصان پہنچایا ہے۔ انڈس موٹر کمپنی کے سی ای او علی اصغر جمالی کے مطابق ملک میں 17 عالمی کمپنیوں کی جانب سے 5 لاکھ یونٹس کی سالانہ پیداواری صلاحیت موجود ہے، مگر صرف ایک تہائی استعمال ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے مقامی گاڑیاں کم مسابقتی اور مہنگی ہو جاتی ہیں۔

 

اسی لیے انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسی پالیسیاں اپنائے جو مقامی مینوفیکچرنگ کو سہارا دیں اور استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدات کے منفی اثرات پر قابو پائیں۔

 

آٹو پارٹس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عثمان ملک نے بھی کہا کہ مسئلہ مسابقت کا نہیں بلکہ غیر مساوی ماحول کا ہے، کیونکہ امپورٹڈ سیکنڈ ہینڈ گاڑیاں ریگولیٹری تقاضوں سے مستثنیٰ رہتی ہیں، جس سے مقامی انڈسٹری متاثر ہوتی ہے۔ ان کے مطابق نئی آٹو پالیسی میں اس مسئلے کو واضح طور پر حل کرنا ناگزیر ہے۔