حکومت کا 36 ارب روپے کا منی بجٹ پیش ، مجموعی نئے ٹیکسز 462 ارب تک جا پہنچے

news-banner

کاروبار - 23 جون 2025

وفاقی حکومت نے حالیہ ترمیمی تجاویز کے تحت ان افراد پر بڑے پیمانے کی معاشی سرگرمیوں — جیسے پلاٹ، مکان یا گاڑی کی خرید، سیکیورٹیز میں سرمایہ کاری، یا بینک اکاؤنٹس رکھنے — پر عائد مکمل پابندی میں نرمی کر دی ہے، جن کے ظاہر شدہ اثاثے ان خریداریوں کا جواز پیش نہیں کرتے۔
 

بڑے فیصلے:
 

  • گاڑی کی خریداری: 

    70 لاکھ روپے تک کی گاڑی خریدنے والے افراد کو نااہلی کی شرط سے استثنیٰ ملے گا۔
     
  • پراپرٹی کی خریداری:

     50 ملین روپے سے زائد کی رہائشی اور 100 ملین روپے سے زائد کی کمرشل پراپرٹی خریدنے والوں پر نااہلی لاگو ہو گی۔
     
  • بینک اکاؤنٹس:
     اگر کسی شخص کے تمام بینک اکاؤنٹس میں سالانہ مجموعی رقم 100 ملین روپے سے زائد ہو، تو پابندی لاگو ہو گی۔
     
  • سٹاک مارکیٹ: 
    اگر سالانہ سرمایہ کاری 50 ملین روپے سے زائد ہو، تو فرد نااہل قرار دیا جائے گا۔
     

ٹیکس اقدامات:
 

  • مرغی پر ٹیکس: 
    ایک دن کی مرغی (چوزہ) پر 10 روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگانے کی تجویز — جس سے چکن کی قیمت میں اضافے کا امکان۔
     
  • شولر پینلز پر سیلز ٹیکس میں کمی: 
    درآمدی سولر پینلز پر سیلز ٹیکس 18 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دیا گیا، جس سے 8 ارب روپے کی آمدن کم ہوئی۔
     
  • سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ: 
    وزیراعظم شہباز شریف کی منظوری کے بعد تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا، جس کے لیے ٹیکس ریونیو میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
     
  • کم آمدنی والوں پر ٹیکس:
     100,000 روپے ماہانہ آمدنی پر انکم ٹیکس کی شرح 1% ہوگی۔ ابتدائی تجویز کے مطابق یہ شرح 2.5% تک بڑھائی جانا تھی جسے سیکریٹری خزانہ نے مسترد کر دیا تھا۔

     

مالیاتی شعبے پر ٹیکس:
 

  • مچوئل فنڈز پر ڈیویڈنڈ پر ٹیکس: ک
    مپنیز کے لیے 29 فیصد انکم ٹیکس لاگو ہو گا اگر آمدن قرض سے حاصل ہو۔
     
  • سرکاری سیکیورٹیز پر منافع:
     ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کے لیے ودہولڈنگ ٹیکس 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دیا گیا۔
     
  • بینک اور فنانشل اداروں کے منافع پر ٹیکس:

    بینک اور مالیاتی ادراداروں پر  20 فیصد ٹیکس لاگو ہو گا۔
     
  • ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ (REIT): 

    اس پر 15 فیصد انکم ٹیکس برقرار رہے گا۔
     

آئی ایم ایف کا کردار:
 

ایف بی آر کے چیئرمین رشید لنگڑیال کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ 6 نئے ٹیکس اقدامات شیئر کیے، جن میں سے 3 کو منظور کر لیا گیا ہے۔
 

کپاس پر یکساں ٹیکس:
 

درآمدی اور مقامی کپاس پر یکساں 10 فیصد سیلز ٹیکس لاگو کرنے کی بھی منظوری دی گئی ہے تاکہ مقامی صنعت کو درپیش مشکلات دور کی جا سکیں۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے بجٹ تجاویز کی منظوری دے دی، جس کی صدارت پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے کی۔ پی ٹی آئی کے دو اراکین اسمبلی، عارف مبین جٹ اور اسامہ میلا، نے بھی ٹیکس اقدامات پر مثبت تجاویز دیں، جنہیں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے سراہا۔

مجموعی طور پر حکومت نے اب تک 462 ارب روپے کے نئے ٹیکسز عائد کر دیے ہیں، اور ایف بی آر کا اگلے مالی سال کا ہدف 14.13 کھرب روپے مقرر کیا گیا ہے ۔