پرامن شہریوں کو تنگ کر کے نفرت بڑھائی جا رہی ہے، پشاور ہائی کورٹ کے ریمارکس

news-banner

پاکستان - 10 اکتوبر 2025

پشاور ہائی کورٹ نے لاپتا افراد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ پرامن لوگوں کو تنگ کر کے معاشرے میں نفرت بڑھائی جا رہی ہے۔

 

یہ ریمارکس جسٹس اعجاز انور نے لاپتا افراد سے متعلق 15 مختلف درخواستوں کی سماعت کے دوران دیے۔ سماعت میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل، ڈپٹی اٹارنی جنرل، درخواست گزاروں کے وکلا، پولیس اور محکمہ داخلہ کے فوکل پرسن عدالت میں پیش ہوئے۔

 

دورانِ سماعت ایک وکیل نے بتایا کہ ان کے موکل کے 15 سالہ بیٹے کو 25 اگست کو سی ٹی ڈی اور مقامی پولیس نے بغیر لیڈی پولیس کے گھر سے اٹھایا، جب کہ 27 اگست کو ان کے تین گھروں کو بھی نذرِ آتش کر دیا گیا۔

 

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ پولیس اور سی ٹی ڈی حکام نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ لاپتا شخص کا بھائی ساجد اللہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے۔

 

درخواست گزار کے وکیل نے وضاحت دی کہ ساجد اللہ چار سال پہلے گھر سے چلا گیا تھا اور خاندان نے اس سے لاتعلقی کا باقاعدہ اشتہار اخبارات میں شائع کرایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اس پر شک ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے، مگر اس کے خاندان کو سزا دینا غیرقانونی ہے۔

 

جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ پرامن لوگوں کو تنگ کرنے سے معاشرے میں نفرت بڑھتی ہے۔ عدالت نے ڈپٹی کمشنر بنوں کو واقعے پر رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا اور وفاقی و صوبائی حکومتوں سمیت تمام متعلقہ اداروں سے لاپتا افراد کے کیسز پر تفصیلی رپورٹس طلب کر لیں۔