امریکی سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ: ٹرمپ کا متنازع شہریت آرڈر جزوی طور پر نافذ

news-banner

تازہ ترین - 02 جولائی 2025

امریکی سپریم کورٹ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اُس متنازع ایگزیکٹو آرڈر کی راہ ہموار کر دی ہے، جس کے تحت غیر قانونی یا عارضی ویزے پر مقیم والدین کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو امریکی شہریت دینے کا عمل روک دیا جائے گا۔ عدالت نے 6-3 کے اکثریتی فیصلے میں اس حکم کے خلاف ملک گیر پابندی ختم کر دی، جس کے بعد یہ قانون 28 ریاستوں میں 27 جولائی 2025 سے نافذ العمل ہوگا۔ ان ریاستوں میں ٹیکساس، فلوریڈا، اوہائیو، انڈیانا، جورجیا اور الاباما سمیت دیگر شامل ہیں، جہاں عدالتوں نے حکم امتناعی جاری نہیں کیا یا اسے چیلنج نہیں کیا گیا۔

 

نئے قانون کا اطلاق اُن بچوں پر ہوگا جو 19 فروری 2025 یا اس کے بعد پیدا ہوئے ہوں، اور جن کے والدین یا تو غیر قانونی مہاجر ہوں یا محض عارضی ویزہ ہولڈر۔ یہ فیصلہ امریکی آئین کی چودھویں ترمیم کی اس تشریح کو چیلنج کرتا ہے، جس کے تحت اب تک امریکا میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو بلا امتیاز شہریت حاصل ہوتی تھی۔

 

دوسری جانب ملک کی 22 ریاستیں، جن میں کیلیفورنیا، نیویارک، واشنگٹن ڈی سی، مشی گن اور نیو جرسی شامل ہیں، عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر چکی ہیں، جہاں اس فیصلے پر عملدرآمد عارضی طور پر رکا ہوا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق، ان ریاستوں میں بھی مستقبل میں قانونی جنگ شدت اختیار کر سکتی ہے۔

 

امیگرنٹ لیگل ریسورس سینٹر اور امریکن سول لبرٹیز یونین کا کہنا ہے کہ اس قانون سے ہر سال تقریباً ڈیڑھ لاکھ بچے متاثر ہو سکتے ہیں، جنہیں پیدائش کے بعد شہریت نہ ملنے کے باعث تعلیم، صحت، روزگار اور قانونی تحفظ جیسے بنیادی حقوق سے محرومی کا خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

یہ فیصلہ نہ صرف امیگریشن پالیسی میں بڑی تبدیلی کی علامت ہے بلکہ اس کے ذریعے سپریم کورٹ نے وفاقی عدالتوں کے ملک گیر احکامات پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ عدالت نے ابھی اس آرڈر کی آئینی حیثیت پر کوئی حتمی رائے نہیں دی، اور ممکنہ طور پر یہ مسئلہ آئندہ عدالتی سیشن (اکتوبر 2025) میں دوبارہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

 

ٹرمپ نے اس عدالتی فیصلے کو اپنی پالیسیوں کی فتح قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ’’بائیں بازو کے انتہا پسند جج‘‘ جن کی وجہ سے انتظامیہ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہو رہی تھیں، ان کا راستہ روک دیا گیا ہے۔

 

لیکن ناقدین کا ماننا ہے کہ یہ اقدام امریکی شہریت کے تصور کو ریاستی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا پہلا قدم ہے، جو وفاقی نظام میں قانونی پیچیدگیاں اور سماجی تقسیم کو مزید گہرا کر سکتا ہے۔

 

فی الوقت یہ معاملہ حتمی طور پر طے نہیں ہوا، اور آنے والے مہینوں میں ریاستی اور وفاقی سطح پر قانونی و سیاسی جنگ کے کئی نئے مراحل متوقع ہیں۔ پیدائشی شہریت جیسے بنیادی انسانی حق پر جاری کشمکش امریکا کے آئندہ قانونی منظرنامے کو تشکیل دے سکتی ہے۔