سپریم کورٹ میں ججز سینیارٹی و ٹرانسفر کیس کی سماعت: عمران خان کے وکیل کو دلائل سے روک دیا گیا

عطاء الرحمان کوہستانی

news-banner

پاکستان - 18 جون 2025

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 1955 میں گورنر جنرل کے آرڈر کے تحت مغربی پاکستان کو ون یونٹ میں تبدیل کیا گیا، جس کے بعد تمام ہائیکورٹس کو ضم کرکے ایک مشترکہ عدالت قائم کی گئی۔ اس وقت ججز کی سابقہ خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے سینیارٹی کی فہرست ترتیب دی گئی تھی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 1970 میں ون یونٹ کے خاتمے اور 1976 میں سندھ و بلوچستان ہائیکورٹس کی علیحدگی کے وقت بھی ججز کی سابقہ سینیارٹی برقرار رکھی گئی۔ ان کا مؤقف تھا کہ تاریخ گواہ ہے کہ ججز کے تبادلوں کے وقت ان کی سابقہ سروس ہمیشہ تسلیم کی جاتی رہی ہے۔

 

جسٹس نعیم اختر افغان کے ریمارکس

 

سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ موجودہ کیس کی نوعیت ماضی سے مختلف ہے، کیونکہ یہاں کسی نئی عدالتی تشکیل یا تحلیل کا معاملہ نہیں بلکہ صرف اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آرٹیکل 200 کے تحت جج کا تبادلہ مستقل سمجھا جائے گا یا عارضی؟

 

ایڈووکیٹ جنرل نے پرویز مشرف کی سنگین غداری کیس میں بننے والی اسپیشل کورٹ کی مثال دی، جس میں 3 مختلف ہائیکورٹس کے ججز شامل تھے اور سب سے سینئر جج کو سربراہ بنایا گیا تھا۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ تبادلے کا عمل آئین کے مطابق ہے، اور صدر مملکت کو اس حوالے سے معیاد طے کرنے کا اختیار حاصل ہے۔جسٹس شکیل احمد نے نشاندہی کی کہ تبادلے کی سمری میں کہیں بھی عوامی مفاد کا ذکر نہیں کیا گیا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 200 میں بھی پبلک انٹرسٹ کی اصطلاح موجود نہیں ہے۔ تاہم جسٹس افغان نے استفسار کیا کہ 14 ججز کو چھوڑ کر صرف 15ویں نمبر کے جج کا تبادلہ کیوں کیا گیا؟ جس پر امجد پرویز نے کہا کہ یہ فیصلہ ججز نے خود آئینی دائرہ کار میں کیا۔ایڈووکیٹ جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عمران خان کے وکیل ادریس اشرف نے دلائل کا آغاز کیا۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
 جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سے استفسار کیا کہ مزید کتنا وقت درکار ہوگا، جس پر ادریس اشرف نے کہا کہ صرف 15 منٹ درکار ہوں گے۔ اٹارنی جنرل نے بھی کہا کہ ان کے دلائل مکمل کرنے میں 15 منٹ لگیں گے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں وکلاء کو بار بار کہا گیا تھا کہ دلائل مختصر رکھیں تاکہ کیس تاخیر کا شکار نہ ہو۔ طویل دلائل کے باعث کیس طویل ہوا، ججز ریٹائر ہوتے گئے اور عدالتی بینچ کی تشکیل بدلتی رہی۔